Tuesday, 23 December 2014

ـ دجالیات سے ایمانیات تک۔۔۔تدبر و تفکر کی آرزو ــ

0 comments



1۔ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ بہت بڑے خلجان کا شکار ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لیے کیسا لائحہ عملSTRATEGY ) مرتب کرے حالانکہ یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ اختتام وقت کی لڑائیاں ( End of Time Battles ) جاری رہیں گی ۔ اگر ہم ہر لحظہ قرآن مجید کی طرف متو جہ رہیں اور اپنی ایمانیات ( Motivating Force ) کی ترقی و ترویج دل و جان سے کرتے چلے جائیں تو ہمارے قدم صحیح منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے ۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے :
( اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انشَقَّ الْقَمَرُ ۔ وَ اِن یَرَوْا آیَةً یُعْرِضُوا وَ یَقُولُوا سِحْر مُّسْتَمِرّ ۔ وَ کَذَّبُوا وَ اتَّبَعُوا أھْوَاء ھُمْ وَ کُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرّ ۔ وَ لَقَدْ جَآئَ ھُم مِّنَ الْأَنبَاء مَا فِیْھِ مُزْدَجَر ۔ حِکْمَة بَالِغَة فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ ۔ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلَی شَیْ نُّکُرٍ ۔ خُشَّعاً أَبْصَارُھُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ کَأَنَّھُمْ جَرَاد مُّنتَشِر ۔ مُّھطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ھٰذَا یَوْم عَسِر )
“ قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے ۔یقینا ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں ڈانٹ ڈپٹ (کی نصیحت ) ہے اور کامل عقل کی بات ہے لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا پس (اے نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) تم ان سے اعراض کرو جس دن ایک پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف پکارے گا ۔ یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہوں گے کہ گو یا پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے ۔ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوں گے اور کافر کہیں گے یہ دن تو بہت سخت ہے ۔” (القمر :1 تا 8)


2۔ تواتر روایات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے ثابت ہوا ہے کہ معجزہ شق القمر آج سے چودہ سو انتالیس ھجری قبل وقوع پذیر ہوا ۔اجرام فلکی میں سے ایک کا دونصف ٹکڑوں میں ہو جانا ، طویل فاصلہ دور ہو جانا اور دفعتاً آپس میں جڑ جانا ایک ایسامحیر العقول واقعہ آسمان پر پیش آیا جس کی تنقیح و توضیح اسلامی دنیا کے سائنس دانوں اور تجربہ نگاروں پر قرض ہے ۔ “ دجالیات “ کے موضوع پر مجلہ “ الواقعة “ میں کچھ احقر کی گزارشات شائع ہوئیں مگر قیامت کی بڑی نشانیوں کا ذکر نہ آسکا۔ ہماری دنیا سے چاند و سورج کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ ایمان بالآ خرت کی تقویت معجزہ شق القمر پر یقین لانے سے ہو تی ہے تو اس کی تکمیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے پر منحصر ہے بشرطیکہ یہ خدائی عمل قبل از موت مشاہدہ میں آئے ۔ فلکیات کی تاریخ ١٣ صدی عیسوی سے مدون ہونی شروع ہو ئی اس لیے مغربی دنیا شق القمر سے ناواقف ہے اور جہالت کا شکار ہے ۔ عقل مندوں کے لیے آفاق میں بکھری ہوئی نشانیوں سے دلوں کے تالے کھل سکتے ہیں :
( أَ فَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُھَا )
“کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں ۔”(محمد: 24)
3۔ خلا نوردی ( Astro Nautics ) کی شروعات بیسویں صدی کی مرہون منت ہے ۔ امریکن خلانورد نیل آرم سڑونگ دنیا کا پہلا شخص ہے جس نے چاند پر قدم رکھا ، اپنی چاند گاڑی کی سیر کی اور اپنے ہمراہ لائے ہو ئے دنیا کے تمام ممالک کے جھنڈوں کے نمونے ( PLAQUES ) سطح قمر پرسجا دیے ۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بڑے طمطراق سے کلمہ طیبہ کا ورود بھی اس سیارہ پر ہوگیا جس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی انگشت شہادت کے اشارہ پر رب العالمین نے دو نیم فر مایا تھا (ہمارا اشارہ سعودی عرب کے جھنڈے کی طرف ہے ) رب العالمین کی کائنات میں شہادت الوہیت و شہادت ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ایک انسان نے تحریری چاند پر پہنچا دی ۔ الحمد للہ !
4۔ دنیا میں ٹکنالوجی پر ہر شخص فدا ہو تا نظر آتا ہے مگر مو منانہ بر تری ( Superiority ) کے بارے میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
( أَ وَ مَن کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنٰھُ وَ جَعَلْنَا لَھُ نُوراً یَمْشِیْ بِھِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُھُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ )
“ کیا وہ شخص جو پہلے مر دہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لو گوں کے در میان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو ا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو ؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ۔” (الانعام : 122)
ہمارے لیے ضروری ہے کہ سمجھیں کہ ٹکنالوجی بمقابلہ ایمان مادہ پرستی (materialism) کی طرف دلوں کو کھینچتی ہے اور نفسانی خواہشات بڑھاتی ہے ۔اس ضمن میں قرآنی نصیحت ہے :
( فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُوا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُونَ أَھْوَاء ھُمْ وَ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللَّھِ اِنَّ اللَّھَ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )
“ پھر اگر یہ تیری نہ مانیں توتو ،یقین کر لے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں ۔اور اس سے بڑھ کر بہکا ہو ا کون ہے ؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو ا ہو بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے ، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (القصص :50)
قرآن کے بتائے ہو ئے حقائق پر مومن نہ صرف ایمان لاتا ہے بلکہ اس کے ایمان و یقین و سکون اور اطمینان قلب میں تر قی ہو نے لگتی ہے ۔ اور جو لوگ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں کرتے چلے جاتے ہیں ان کا حال کیسا ہو تا ہے ؟ خود قرآنی تبصرہ پر غور و فکر فر مائیں :
( وَ اِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَة فَمِنْھُم مَّن یَقُولُ أَیُّکُمْ زَادَتْھُ ھَذِہِ اِیْمَاناً فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ فَزَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَ ھُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ۔ وَ أَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِھِم مَّرَض فَزَادَتْھُمْ رِجْساً اِلَی رِجْسِھِمْ وَ مَاتُواْ وَ ھُمْ کَافِرُونَ ۔ أَ وَ لاَ یَرَوْنَ أَنَّھُمْ یُفْتَنُونَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لاَ یَتُوبُونَ وَ لاَ ھُمْ یَذَّکَّرُونَ ۔ وَ اِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَة نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلَی بَعْضٍ ھَلْ یَرَاکُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُواْ صَرَفَ اللّھُ قُلُوبَھُم بِأَنَّھُمْ قَوْم لاَّ یَفْقَھُون )
“ جب کوئی نئی سورت نازل ہو تی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پو چھتے ہیں کہ “ کہو تم سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ؟ “ (اس کا جواب یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہو نے والی سورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دل شاد ہیں ، البتہ جن لو گوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہو ا تھا ان کی سابق نجاست پر ( ہر نئی سورت نے ) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا اور وہ مرتے دم تک کفر میں مبتلا رہے ۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟ مگر اس پر بھی نہ تو بہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں ۔اور جب کو ئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ، پھر چپکے سے نکل بھا گتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دئیے ہیں کیو نکہ یہ ناسمجھ لو گ ہیں ۔” (التوبہ: 124 تا 127)
5۔ سورج اور چاند کے جوڑ کو ، با لواسطہ (indirectly )عام فہم انداز میں روزانہ کی ضروریات (دینی اور دنیوی ) پوری کرنے ساتھ ساتھ قیامت کا حوالہ بھی دیتے ہو ئے ، جناب باری تعالیٰ کس طرح اشارات دے رہے ہیں تاکہ آسمان پر ان نشانیوں سے عبرت ہو:
( وَ جَعَلْنَا اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَ جَعَلْنَا آیَةَ النَّھَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ وَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً ۔ وَ کُلَّ اِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئِرَہُ فِیْ عُنُقِھِ وَ نُخْرِجُ لَھُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُوراً ۔ اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً )
“ ہم نے ، رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں ، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لیے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرمادیا ہے ۔ ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا۔ لے! خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے ۔ آج تو تو آپ اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔” (بنی اسرائیل: 12 تا 14)
6۔ رات و دن کا ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنا جانا کتنی بڑی عظیم الشان نعمتیں بھی ہیں ،غور فر مائیے :
( قُلْ أَرَأَیْتُمْ اِن جَعَلَ اللَّھُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَداً اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ اِلَھ غَیْرُ اللَّھِ یَأْتِیْکُم بِضِیَاء أَفَلَا تَسْمَعُونَ ۔ قُلْ أَرَأَیْتُمْ اِن جَعَلَ اللَّھُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَداً اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ اِلَھ غَیْرُ اللَّھِ یَأْتِیْکُم بِلَیْلٍ تَسْکُنُونَ فِیْھِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔ وَ مِن رَّحْمَتِھِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوا فِیْھِ وَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِھِ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )
“ کہہ دیجئے ! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی لائے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ پوچھئے! کہ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے ؟ جس میں تم آرام حاصل کر و ، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو ؟ اسی نے تمہارے لیے اپنے فضل و کرم سے دن رات مقرر کر دیے ہیں کہ تم رات میں آرام کرو اور دن میں اس کی بھیجی ہو ئی روزی تلاش کرو، یہ اس لیے کہ تم شکر ادا کرو ۔” ( القصص :71 تا 73)
7۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دشمن بادشاہ نمرود غیر مسلم مغربی اقوام کا پسند یدہ ہیروؤں ( Heroes ) میں سے ایک ہے ۔ اس نے جب آگ کے بہت بڑے الاؤ میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے مانے ہوئے پیشوا (Patriarch) کو ڈالنے والا تھا ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا ۔ فرقان حمید کی بیان کردہ رپورٹنگ (reporting) اپنے احاطہ فکر میں لائیے :
( أَ لَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رِبِّھِ أَنْ آتَاہُ اللّٰھُ الْمُلْکَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیِیْ وَ أُمِیْتُ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ فَاِنَّ اللّٰھَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَ اللّٰھُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )
“ کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا ، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے وہ کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ، ابراہیم (علیہ السلام ) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ ۔ اب تو وہ کافر، بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔” (البقرة: 258)
8۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے مبارک دور میں دنیا کرہ ارض کی اپنے محور کے گرد گردش وغیرہ سے ناآشنا تھی جب کتاب ہدایت کا گردش لیل و نہار کا ذکر کرتا اور اب دنیا کے چوٹی کے ماہرین فلکیات کی روز افزوں ترقی پذیر تحقیقات میں نظر آنے والا بُعد ایمانی غور و فکر سے غائب ہو جاتا ہے کیو نکہ فر مانروائے کائنات اپنے جاہ جلال کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہی تخلیق کردہ ثابت و سیارہ ، سورج و چاند کا اپنے مدار میں حرکات Rotation کو روک دیں تو زندگی محال ہو جائے پیرا 5 اور 6 میں بیان کردہ تر جمہ آیات کا ایک مرتبہ اور مطالعہ فرما لیا جائے ۔اب اگر مسلمان طالب علم کو سائنسٹفک طریقہ تعلیم سے گردش لیل و نہار بخوبی سمجھائی جا سکتی ہے تو بطریق احسن ان چند آیات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نعمتوں کا خلوص نیت سے اسے اظہار تشکرسکھانا اس کے ایمان کو کیسی جلا (الفاظ بیان سے قاصر ہیں ) بخشے گا ۔!

Thursday, 18 December 2014

٭٭ خروج دجال٭٭

0 comments

خروج دجال کے بارے ایک مفصل اور جامعہ تحریر ۔

حدیث :عن ابی بکر الصدیق قال :" حدثنا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال : '' الدجال یخرج من ارض بالمشرق یقال لہا خراسان یتبعہ اقوام کأنّ وجہوہم المجان المطرقة ۔''
ترجمہ :سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان فرمایا کہ : '' دجال ارضِ مشرق سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے ۔قومیں اس کی پیروی کریں گی جن کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح ہونگے ۔''
تخریج :
(١) سنن ترمذی ، کتاب الفتن ، باب : ما جاء من این یخرج الدجال (٢) سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب : فِتنِ الدجالِ ، و خروجِ عِیسیٰ ابنِ مریم ، و خروجِ یاجوج و ماجوج (٣) مسند احمد ، مسند ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (٤) مسند ابی یعلی ، مسند ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (٥) المستدرک علی الصحیحین ، کتاب الفتن و الملاحم (٦) مسند عبد بن حمید ، مسند ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (٧) مسند البزار ۔
حکم فی الحدیث :
امام ترمذی اس حدیث کو '' حسن غریب '' قرار دیتے ہیں ۔علامہ حافظ عبد المغنی المقدسی کے مطابق یہ حدیث '' صحیح غریب '' ہے ۔ جبکہ امام حاکم ، امام ذہبی ، علامہ البانی ، مولانا محمد علی جانباز ، شعیب الارنائوط وغیرہم کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث '' صحیح ''ہے۔ الغرض ائمہ فن کی تصریحات کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے استدلال بالکل درست۔
تشریح :
( الدجال یخرج )'' دجال نکلے گا '' یہاں دجال کے نکلنے سے متعلق کچھ اشکالات پائے جاتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ کیا پہلے پہل اس کا اعلانیہ خروج مراد ہے یا اس کا اپنی کارروائیوں کو انجام دیتے ہوئے خراسان میں ظاہر ہونا مراد ہے ، کیونکہ ایک دوسری حدیث میں ہے :
''اِنہ خارِج خلة بین الشامِ والعِراق ''] مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعة ، باب ذِکرِ الدجالِ وصِفتِہِ وما معہ - سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب فتنة الدجال و خروج عیسیٰ بن مریم و خروج یاجوج و ماجوج - مسند احمد ، مسند الشامیین ، حدیث نواس بن سمعان الکلابی[
'' بے شک دجال شام اور عراق کے درمیانی راستے سے نکلنے گا ۔ ''
تاہم ان باہم بظاہر متعارض روایت کا جواب بھی ہمیں صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث سے ملتا ہے :
''یأتِی المسِیح مِن قِبلِ المشرِقِ ہِمتہ المدِینة حتی ینزِل دبر احد ثم تصرِف الملائِکة وجہہ قِبل الشامِ وہنالِک یہلِک ۔'' ]صحیح مسلم ، کتاب الحج ، باب صِیانِة المدِینِة مِن دخولِ الطاعونِ والدجالِ ِالیہا[
''مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اس کا ارادہ مدینہ منورہ میں آنے کا ہوگا یہاں تک کہ وہ کوہِ احد کے پیچھے اترے گا پھر فرشتے اس کا منہ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہاں وہ ہلاک ہوگا ۔ ''اس حدیث سے دجال کے خروج کی تفصیل اور اس کی ترتیب واضح ہوجاتی ہے ۔
ہماری زیر تشریح حدیث میں '' الدجال یخرج '' سے مراد دجال کا انسانی دنیا میں پہلے پہل اعلانیہ نکلنا مراد ہے ۔ بعض افراد اس حدیث کو مسلم میں روایت کردہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کی اس مشہور حدیث سے متعارض سمجھتے ہیں جس میں ہے کہ دجال مشرق کی جانب کسی جزیرے میں قید ہے ۔ چنانچہ حافظ عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی اپنی کتاب ''ا خبار الدجال'' میں لکھتے ہیں :
''ہذا حدیث صحیح غریب و ہو مخالف لحدیث تمیم الداری'']ص : ١٧، دار الصحابة للتراث بطنطا١٤١٣ھ /١٩٩٣ئ[دو بظاہر صحیح الاسناد متعارض احادیث میں سے کسی ایک کو رد کرنے کی بجائے ہمیں چاہیئے کہ ہم ان متعارض روایات میں وجہ تطبیق تلاش کریں ۔ اس طرح اختلافات کا خاتمہ ہوتا ہے اور استدلال کے نئے گوشے نمایاں ہوتے ہیں ۔حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی بالکل درست ہے جس میں مذکور ہے کہ دجال ایک جزیرے میں قید ہے اور سیدنا ابو بکر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ دجال مشرق کی طرف خراسان سے نکلے گا ۔ ان دونوں احادیث کی روشنی میں یہ حقیقت نکھر کر واضح ہوتی ہے کہ دجال کو قید سے رہائی پہلے ملے گی اور انسانی دنیا میں اعلانیہ خروج کا اقدام وہ کچھ عرصہ بعد کرے گا ۔ کیونکہ خراسان کو کسی بھی طرح جزیرہ نہیں کہا جا سکتا ۔ فطری طور پر رہائی کے بعد وہ پہلے پہل اپنے لیے پیروکاروں کا ایک جتھا تیار کرے گا جو اس کی پیروی کریں ۔ اس کا اشارہ بھی ہمیں صحیح مسلم ہی کی ایک روایت سے ملتا ہے :
'' یتبع الدجال مِن یہودِ اصبہان سبعون الفا علیہِم الطیالِسة ۔'' ]مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعة ، باب فِ بقِی مِن حادِیثِ الدجالِ['' اصبہان کے ستر ہزار یہودی جنہوں نے کالی چادریں اوڑھیں ہونگیں ، دجال کی پیروی کریں گے ۔ ''
( من ارض بالمشرق یقال لہا خراسان ) '' مشرق کی زمین سے ، جسے خراسان کہا جاتا ہے ۔''بعض روایات میں صرف ارضِ مشرق کا ذکر ہے تاہم اس روایت میں مزید وضاحت فرمادی گئی کہ دجال مشرقی خطے خراسان سے خروج کرے گا ۔ ارضِ مشرق کا اطلاق لغوی اعتبار سے سب سے زیادہ خراسان ہی پر ہوتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق '' خراسان '' فارسی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے '' خور '' ( یعنی سورج ) اور''آسان ''( یعنی نکلنا ، نکلنے کی جگہ )۔ اصطلاحاً کہا جائے گا کہ وہ مقام جہاں سے سورج نکلتا ہے ۔ فارسی زبان کی مشہور لغت '' لغت نامہ دھخدا '' میں ہے :
''خراسان در زبان قدیم فارسی بمعنی خاور زمین است۔''اور '' خاور زمین'' کا مطلب ہے '' ارض بالمشرق '' مشرق کی زمین۔
( یتبعہ اقوام )''قومیں اس کی پیروی کریں گی۔''دجال کا اعلانیہ خروج تنہا نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ مختلف اقوام کے لوگ ہونگے جو اس کے چشم ابرو کی ہر ہر جنبش کی تعمیل کریں گے ۔
( کأنّ وجہوہم المجان المطرقة ) ''جن کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح ہونگے۔''دجال کی پیروی مختلف اقوام کے لوگ کریں گے ان میں سے بعض کی صفت یہ ہوگی کہ ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح یعنی پُر گوشت اور چوڑے ہونگے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں :
'' ہذا الوصف اِنما یوجد فِی طائِفِ الترک و الازبِک ما ورا النہرِ ۔'' ]تحفة الاحوذی:٦/٢٢['' یہ وصف ترک ، ازبک اور ماوراء النہر کے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔''فوئد و نکات :
اس حدیث سے حسب ذیل نکات واضح ہوتے ہیں :
١- انسانی دنیا میں دجال کا اعلانیہ خروج خراسان کے مقام سے ہوگا ۔٢- دجال کو قید سے رہائی پہلے ملے گی اور انسانی دنیا میں اعلانیہ خروج کا اقدام وہ کچھ عرصہ بعد کرے گا ۔٣- رہائی کے بعد وہ پہلے پہل اپنے لیے پیروکاروں کا ایک جتھا تیار کرے گا جو اس کی پیروی کریں گے۔٤- دجال کا اعلانیہ خروج تنہا نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ مختلف اقوام کے لوگ ہونگے ۔٥- دجال کی پیروی کرنے والے مختلف اقوام کے لوگوں میں سے بعض کی صفت یہ ہوگی کہ ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح یعنی پُر گوشت اور چوڑے ہونگے ۔
خراسان،ایران کاایک اہم اور قدیم صوبہ۔جغرافیہ:اس میں پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور ، مرو ، ہرات اور بلخ اس کے دارالحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حددو میں شامل ہے۔
تاریخ:86ھ ہجری میں اسلام کے مشہور جرنیل قتیبہ بن مسلم نے خراسان کو اسلامی حکومت میں داخل کیا ۔ بعد کی اسلامی تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ساتویں صدی میں ابومسلم خراسانی نے یہیں سے بنو امیہ کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔
ذرائع:اس کے شمال میں پہاڑ ہیں۔ کوہ البرز کی وادیوں میں اناج ، تمباکو ، اور جڑی بوٹیاں بوئی جاتی ہیں۔ سونے اور چاندی کی کانیں بھی ہیں۔ـــــ بشکریہ ::::غازی میڈیا ـــــ

●═══◄کڑوی مگر سچی تحریر ـــبچہ جمہوریہ ►═══●

0 comments



●═══◄کڑوی مگر سچی تحریر ـــبچہ جمہوریہ ►═══●

اسلامی جمہوریہ پاکستان – یہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ ۔ انسانی تمدن کی تاریخ میں مختلف طرزِ ہائے حکومت اور ان کی ذیلی شکلیں آزمائی گئیں ۔ جمہوریت (Democracy)، اشرافیت (Aristrocracy)، عدیدیت (Oilgarchy) ، ملوکیت (Monarchy)، آمریت (Dictatorship)، مذہبی حکومت (Theocracy) ، لبرل اور سیکولر حکومت اور ایک عدیم النظیر خلافت راشدہ ۔ پاکستان کا طرزِ حکومت ان سب سے ماوراء ہے۔ اردو، فارسی، عربی اور کسی اور زبان میں اس کے شایانِ شان کوئی لفظ نہیں ایک نئی اصطلاح ڈھالنی پڑتی ہے۔ یونانی زبان کا ایک لفظ Klept بمعنی چور ہے اس سے انگریزی لفظ Kleptomania نکالا گیا۔ ایک معتبر انگریزی ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں۔
An Irresistable Tendency to Theft in Persons who are well to do.
خوشحال لوگوں میں چوری کا بے قابو رجحان۔
کیا پاکستان میں رائج طرزِ حکومت کے لیے کلپٹوکریسی سے بہتر نام سوچا جا سکتا ہے؟ ہم اردو میں اس کو "دزدیت" کہہ سکتے ہیں۔ دزد فارسی میں چور کو کہتے ہیں، اردو میں دزدیدہ نگاہی، دزدِ حنا کے الفاظ مستعمل ہیں۔ ملک کے محسود ملوک اشرف و اشراف و مشرف، معظم فی الدین و الدنیا اور ان کے منظور نظر کی مال داری اور زرداری سے کون واقف نہیں۔ ان میں اقتدار کے تخت نشین بھی ہیں روحانی دنیا کے سجادہ نشین بھی۔ چوری اور سینہ زوری کرنے والے روحانی اور دنیاوی پیشوا اگر چورنہیں تو کیا چور کے سر پر دو سینگ ہوتے ہیں؟ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اراکین اور ارباب حل و عقد پر ٹیکس چوری، رشوت خوری، خورد برد، غبن، جعلی ڈگری رکھنے، انتخابات میں دھاندلی کرنے وغیرہ کے سر عام ببانگِ دہل الزام لگتے رہے ہیں اور لاکھوں کی چوری ان خاندانی موروثی چوروں کے شایان شان نہیں۔ یہ اربوں کھربوں کے الٹ پھیر کے مشاق چور ہیں۔
اور پھر کہا جاتا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور صحابہ کرام کی قائم کردہ مدینہ کی پہلی نظریاتی ریاست کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی اسلامی ریاست ہے۔ نظریاتی اور واقعاتی طور پر یہ اس درجہ کا جھوٹ ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنا۔ جھوٹ کی تکرار جھوٹ کا عقیدہ بنا دیتی ہے۔ دونوں ریاستوں میں ایک ہی چیز مشترک ہے کہ دونوں ریاستیں ہیں۔ باقی ہر معاملہ میں وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فرعون کی بھی ایک حکومت تھی وہ حکمران تھا، حضرت عمر کی بھی ایک حکومت تھی وہ بھی حکمران تھے، اس اشتراک کے قطع نظر دونوں حکمران اور ان کی حکومتیں ایک دوسرے کی ضد تھیں، گل و خار میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں نباتاتی پیداوار ہیں دونوں کے متضاد خواص سے ہر ایک واقف ہے۔
مدینہ کی ریاست کے بانی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم تھے معصوم عن الخطا تھے۔ وحی الٰہی کی ہدایت سے بہرہ ور تھے ان کے جانشین ان کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے عقیدہ سے علم کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ ان کا دین علم کی یقینیات پر تھا وہاں کے لوگ افلا تعقلون، افلا تتفکرون، لعلھم یفقھون، افلا یتدبرون کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اولوا الالباب اور اولی الابصار تھے۔
مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد عقیدہ توحید اور اس کے تقاضوں کی تکمیل پر تھی اس عقیدہ کی بنیاد بھی تعقل و تفکر تھی۔ قرآن نے ان کے دلائل دیئے اور دعوت فکر دی۔ عقل و حواس کی خدا داد نعمتوں کی نا قدری پر قرآن نے اوّلین مخاطبین سے سورہ اعراف آیت 179 میں فرمایا :

وَلَقَدۡ ذَرَأۡنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرٗا مِّنَ ٱلۡجِنِّ وَٱلۡإِنسِۖ لَهُمۡ قُلُوبٞ لَّا يَفۡقَهُونَ 

بِهَا وَلَهُمۡ أَعۡيُنٞ لَّا يُبۡصِرُونَ بِهَا وَلَهُمۡ ءَاذَانٞ لَّا يَسۡمَعُونَ بِهَآۚ 

أُوْلَٰٓئِكَ كَٱلۡأَنۡعَٰمِ بَلۡ هُمۡ أَضَلُّۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡغَٰفِلُونَ ١٧٩

"اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا یعنی بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، ان کے پاس عقل ہے لیکن اس سے سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں، کان ہیں مگر سنتے نہیں وہ عقل و حواس کھو کر چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے زیادہ کھوئے ہوئے، ایسے ہی لوگ ہیں جو سر تا سر غفلت میں ڈوب گئے۔"
مدینہ کے حاکم دنیاوی معاملات میں مقتدر تھے، دین کے معاملات میں جانشین رسول معلم تھے، محتسب تھے، مفتی تھے، الآمرون بالمعروف و الناھون عن المنکر تھے، والحافظون لحدود اللہ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو اطاعت رسول کا حکم دیا۔ فرمایا: مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدۡ أَطَاعَ ٱللَّهَۖ (النساء : 80 ) اور سنہ 10 ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر سورہ مائدہ کی آیت 3 کے ایک حصہ میں فرمایا:
پاکستان کے موجود حکمرانوں کا مختصر ذکر ہو چکا۔ دوسری نظریاتی اسلامی مملکت کا قیام ان لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جنہیں اسلامی ریاست کی ہیئت ترکیبی، فکری اساس، تشکیل کے بنیادی عوامل و عناصر کے طریقہ کار کا شعور نہ تھا دین کے عقائد کی بجائے ان کے ہاں صرف موروثی روایاتی خوش اعتقادی تھی۔ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ میں کوئی عالم دین نہیں تھا۔ کسی مخلص، لائق و فاضل با کردار سیاست دان کی اپنے موقتی درپیش مقاصد میں کامیابی، علم دین سے بہرہ مندی اور تاریخ کے الٰہی قوانین کے شعور کی دائمی رہنمائی کا بدل نہیں اور آج بھی کسی سیاسی جماعت میں کوئی عالم دین نہیں ہر جماعت میں ایک ہی شخصیت میں علامہ، مولانا، مفتی، مفکر، فلسفی، دانشور،قانون داں وغیرہ کی صفات جمع ہوگئی ہے۔ ملک میں جماعتوں اور انجمنوں کی کمی نہیں اور پھر ہر جماعت کا ہر قائد اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ ایک نئی مصیبت آن پڑی کہ بھانڈ، بہروپیے، مسخرے، قصہ گو، گویوں، جہلا کو دشمنان اسلام اور ان کے مقامی آلہ کار بعض میڈیا والوں نے مسلمانوں میں با وقار با اثر شخصیات قرار دے کر جاہل عوام کے ذہنوں پر ان کا سکہ بٹھانا شروع کیا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدار ذوق خواری ہے
اکثر میڈیا والے جنس رسوائی کے دلال اور ذوقِ خواری کے خریدار ہیں اور اس سودے میں کروڑوں کے وارے نیارے ہیں ان کا مقصدِ حیات اور ان کا معبود پیسہ ہے۔ جو پیرہن ان کا ہے مذہب کا کفن ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اسلام کی پیروی کی دعویدار ہے لیکن اسلام سے عملاً نکلے ہوئے ان مسلمانوں کو اسلام سے وہی نسبت ہے جو کعبہ سے نکالے گئے بتوں کو کعبہ سے تھی جن کے متعلق غالبؔ نے کہا تھا
گو واں نہیں پہ واں کـــے نکالـــے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
دوسری نظریاتی اسلامی ریاست میں دین ایک تماشہ ہے، لہو و لعب ہے، خرافات ہے، اس لیے اللہ کا حکم ہے :
وَذَرِ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَهُمۡ 
لَعِبٗا وَلَهۡوٗا وَغَرَّتۡهُمُ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَاۚ (الانعام :70)
"ایسے لوگوں سے کنارہ کش رہو جنہوں نے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔"
مسخرہ عالم یا منافق سیاستدان جیسے نیچ سے نیازمندانہ یا خود غرضانہ تعلق رکھنے والا اس آیت کے حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔ الغرض غور کریں پاکستانی قوم کردار کے بحران Crisis of character میں مبتلا ہے اور کردار کا خمیر مذہبی احکام کی پابندی، ضابطہ اخلاق کی پاسداری اور ہوش و حواس کی یاری سے اٹھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان اسلام کا قلعہ کیوں کر ہے۔

شریعت کے بغیر ادھورے ہیں ہم

0 comments


أج ہم بہت ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں جہاں اتنی پرأسائش زندگی ہے کہ کوئی چیز انسان کی دسترس سے باہر نہیں ہے اور احباب کی سوسائٹی ایسی جہاں ہر شخص اپنے أپکو پڑھا لکھا مہزب لبرل کہلوانا پسند کرتا ہے بظاہر انسان بہت مہزب دکھائی دیتے ہیں مگر انسانوں کی انسانیت کی حالت دیکھ کر عربوں کی جہالت کا دور یاد أ جاتا ہے جب وہ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے جب انسانوں اور جانوروں کے رہن سہن عادات و اظوار میں کوئی خاص فرق نہیں تھا جب وہ مردار کھاتے تھے ان میں حرام و حلال کی تمیز نہیں تھی جب جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دستور تھا جب عورت کی کوئی عزت نہیں تھی جب اسے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا أج کے مہزب معاشرے میں اس کو زندہ تو چھوڑ دیا جاتا ہے مگر اس کی عزت اسکے حقوق کا استحصال اتنا کیا جاتا ہے کہ وہ روز جیتی اور روز مرتی ہے أج کے اور اس دور میں پائے جانے والے معاشرے میں زیادہ تفریق نہیں کی جا سکتی بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بدو تھے اور ہمارا معاشرہ اپنے أپکو جدید دور کے لوگ کہلوانا پسند کرتا ہے تاریخ گواہ ہے جب انسانیت اپنے مقام سے گر جکی تھی دنیا جہالت کی تاریکیوں میں غرق ہو رہی تھی تو اللہ نے اپنے پیارے نبیﷺ کو دنیا میں بھیج کر دنیا کو اسلام کی روشنی سے منور کر دیا پھر اسی معاشرے کے بدوؤں نے اپنے سینوں کو اسلام کی روشنی سے منور کیا 
اور یوں دنیا نے دیکھا کہ دیے سے دیا جلتا گیا اور سارا عالم روشن ہو گیا مگر اس دور کے مسلمان نے اللہ کو اپنا حقیقی رب نبیﷺکو اپنا رہبر اور قرأن کو اپنا دستور مانا اور پھر اللہ نے ان کو وہ عزت بخشی کہ أج بھی جب کوئی مسلمان اپنے اسلاف کے کارناموں کو پڑھتا ہے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ہماری تاریخ ہمارے اسلاف کی جانبازیوں،جواں مردیوں،لازوال قربانیوں ،لائق ستائش و قابلِِ فخر علم و فن کے کارناموں سے بھری پڑی ہے
تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا اللہ نے انھیں عزت بخشی انھوں نے لوگوں کے دلوں پر حکومتیں کیں اور علام و فنون کے ماہر رہے مگر بد قسمتی سے جب دین سے منہ موڑنا شروع کیا اپنے معاملات میں رحمن کی بجائے شیطان کے نقشِ قدم پر چلے تو دنیا مین ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے اور تنکا تنکا ہو کر بکھر گئے
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ہمارے اسلاف نے یہ ملک اللہ سے اس عہد پہ لیا تھا کہ یہاں دین کا نفاذ کریں گےلاکھوں قربانیوں کے بعد اس ملک کو حاصل کیا گیا پھر بدقسمتی سے اس ملک کے حقیقی خیرخواہ زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور بعد میں أنے والوں نے اسے أڑے ہاتھوں لیا اور اللہ کی ساتھ کیے عہد کو بھلا دیا اور رفتہ رفتہ لوگ اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دینے لگے اور چھوٹے چھوٹے مفادات اور چند ٹکوں کی خاطر اپنے ووٹ کو،اپنی قیمتی امانت کو چوروں ،لٹیروں اور ملک دشمن عناصرکو اپنے ملک میں استحکام بخشنے لگے اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان کرنے لگے
اور بے ضمیر حکمرانوں نے چند ٹکوں کی خاطر اس ملک کو بے حد نقصان پہنچایا اور اس ملک کو دولخت کر دیا جو لوگ اللہ کی حدوں کو پامال کرنے والے ہوں ان سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے مگر اس تباہی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں اللہ کا وعدہ ہے جیسی قوم ویسا حکمران ۔۔۔۔۔۔ أج ہم میں سے ہر شخص روٹی ،بجلی،پانی اور مہنگائی انصاف نہ ملنے کا رونا روتا ہے کیسے انصاف ملے؟؟؟؟؟ْجب سب کچھ ہمارا اپنا خریدا ہوا ہے اللہ کے باغیوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی ساوئے اس ہستی کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے معافی مانگنے اور اس کے راستے کو اپنانے اور اپنا بھولا ہوا وعدہ وفا کرتے کے ہمارے پاس اور کوئی أپشن نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔خدارا کوئی انقلاب نہیں لا سکتا یہ سب لا یعنی باتیں ہین ایک ہی صورت ہے جب ہر انسان اپنا محاسبہ کرے اپنے اندر کی دنیا کو بدلے اور اپنے أپ کو ساری غلامیوں سے نکال کر اللہ کی غلامی میں نہیں دے دیتا نہ کوئی انقلاب لا سکتا ہے نہ ہی کوئی ہمیں رسوائیوں سے بچا سکتا ہے
اللہ سے دعاگو ہوں جس طرح اللہ نے دور جہالیت کے بدوؤں کے سینے اسلام کے نور سے منور کیے تھے ویسے ہماری قوم کے سینوں کو اسلام کےنور سے منور کر دے اور ہمیں پاکستان کو حقیقی  شرعی ریاست بنانے کی توفیق دے 
أمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثمر غازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

●═══◄آپ مسکراتے کیوں نہیں►═══●

0 comments


!!اعجب سا سوال ؟۔ثمر غازی کے قلم سے!!!
●═══◄آپ مسکراتے کیوں نہیں►═══●
دیکھ میں جانتا ہوں کہ حالات اچھے نہیں ،
روز روز کی افتاد نے تیرا ذھن مفلوج کر دیا ہے
، تو سوچ نہیں پا رہا ، مہنگائی کا رونا تو ازل کا ہے ،

دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ، مگر یہ تو دنیا ہے ،

جس میں ہر رنگ ہے ، تم ایک ہی رنگ کیوں دیکھتے ہو ،

کبھی تم کھلے میدان میں جی بھر کہ سانس لو تو سہی ۔ ۔ ۔ ۔۔ کیا کہا ؟ ہوا میں بارود کی بُو ہے ، نہیں تو مجھے تو نہیں لگتی ، یار میں جیسے عادی ہو گیا ہوں ویسے ہی تم بھی عادی ہو جاؤ ، دیکھو تم جتنے حساس بنو گے ، اتنا ہی دکھ سہو گے

خون کا رنگ لال ہوتا ہے ، اب تمہیں لال رنگ سے خوف کیوں آتا ہے ، ذرا سا زخم لگ جائے تم بولائے پھرتے ہو ، دروازہ زور سے بند ہو تو تمہیں دھماکے کا گماں ہوتا ہے ، بس ڈرائیور جلدی میں بریک مارے تو تمہارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں ، دوکاندار مہنگائی کا رونا روئے تو تمہیں اس سے ہمدردی ہو جاتی ہے ، یار غریبوں سے ہمدردی اچھی بات ہے مگر تم تو غریب نہیں ہو نا تو پھر شکر ادا کرو اللہ کا اور اپنی زندگی مزے سے گزارو ، دوسروں کے دکھوں کو اپنے اوپر طاری کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟


اگر کسی امریکی نے تین چار بندے مار دئیے ہیں لاہور میں تو کیا ہوا ، روز لوگ مرتے ہیں ، اگر کسی نے خود کُشی کی تو کیا ہوا یہ بذدل لوگ کیا کرتے ہیں ، جو حالات سے لڑنا نہیں چاہتے ، امریکہ کی عوام دیکھو کیا وہاں قتل نہیں ہوتے کیا وہاں زیادتیاں نہیں ہوتیں سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ لوگ ہماری طرح کسی حادثے کو نمائش نہیں بناتے ، دُبئی میں روزانہ قتل ہوتے ہیں روزانہ مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے کیا تم نے کبھی دبئی سے کوئی لائیو خبر دیکھی ہے سوائے ناچ گانوں کے پروگرام کے ؟ انہی چینلز نے براہ راست ساری دنیا سے نئے سال کے استقبال کے مناظر دکھائے کیا یہ خوشیاں منانے والے افغانستان اور فلسطین میں روزانہ مرنے والوں کے بارے میں نہیں جانتے ، جانتے ہیں ، مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ لوگ بے وقوف ہیں حالات سے کمپرومائز نہیں کرتے ، ہم امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں مگر زندگی امریکیوں جیسی گزارنا چاہتے ہیں ، ہم یورپین کو بے راہ روی پر لعن طعن کرتے ہیں مگر خود اسی راہ پر چلنا فخر سمجھتے ہیں ۔ ۔۔


میں جانتا ہوں تم بہت محب وطن ہو ، اور تمہیں وطن میں ہونے والے ہر برے واقعے کا دُکھ ہوتا ہے ، مگر تم سے کس نے کہا ہے کہ ہر وقت نیوز چینل دیکھو؟ کتنا اچھا زمانہ تھا جب ایک ہی چینل تھا رات کو صرف خبرنامہ ہوتا تھا جس کو صرف بڑے سنتے تھے نہ کوئی بحث تھی نہ مباحثہ ، میں تم سے کہتا ہوں صبح سویرے کے پروگرام دیکھا کرو انٹرٹینمنٹ چینل پر ، جیسے مایا خان کا شو ، جیسے نادیہ کا شو جیسے مانی وغیرہ کا شو ، تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ پاکستان میں کوئی دکھ درد ہے کہ نہیں ، تمہاری صبح کھلکلاتی ہنسی سے ہو گی اور شام گنگناتے لمحوں میں ہو گی ، اب تو اتنا اچھا ہو گیا ہے کہ چینلز کی تفریق ہو چکی ہے ، میں تو کہتا ہوں اپنے ٹی وی کی سیٹنگ سے نیوز چینل ہی ڈیلیٹ کر دو ، صرف انٹرٹینمنٹ چینل رہنے دو ، موویز دیکھو ، شیلا کی جوانی اور منی کی بدنامی دیکھو ، فلمی ستاروں کی جگمگاتی دنیا دیکھو ، اعضاء کی شاعری اور فیشن کی پُرکاری دیکھو ، ہنسنے ہنسانے والے پروگرام دیکھو ، ارے زندگی کے رنگ دیکھو ۔ ۔ ۔


اور ہاں ایک اور طرح کے چینل بھی دیکھ سکتے ہو ، مذہبی چینل ، ہاں سارا دن تمہارا دین کی تعلیم میں گذرے گا ، آنکھیں تبرکات سے منور ہونگی اور کان حسین و جمیل مذہبی شاعری پڑھنے والیوں سے مسحور ہونگے ، تمہیں پتہ چلے گا کہ عبادات کیسے ہوتیں ہیں مشاہیر ہمارے کیا کیا کارنامے کرتے رہے ہیں اور تو اور تم چاہو تو وضو کے مسائیل سے لیکر کھانے کے آداب اور کوے کے حلال و حرام ہونے پر بھی لائیو پروگرام میں عظیم مفتیوں سے براہ راست بات کر سکتے ہو اور دنیا و آخرت کی فلاح پا سکتے ہو ، وہ تمہیں بتائیں گے کہ تم بیٹھے ہوئے لیٹے ہوئے کون کون سی تسبیحات کا ورد کر کہ دنیا میں دولت ، عزت ، اور کمال حاصل کر سکتے ہو ، بیٹھے بٹھائے تم اللہ کی رحمتوں کی بارش میں بھیگ سکو گے


یار پلیز اب تو بدل جاؤ ، یہ لائف اسٹائیل ٹھیک نہیں ہے ، تمہارا جو دل چاہے کرو مگر مجھے اتنا بتا دو کہ دنیا میں ایسا کیا ہو گیا ہے کہ تُو مسکراتا نہیں ؟؟؟ بتا نا میرے یار تُو مسکراتا کیوں نہیں ؟؟

فرعونی حکمران٭٭

0 comments


مصر کے عوام سے اگر کوئی پوچھے کہ فرعونوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے 
تو وہ انہیں مصر کے لئے رحمت کہیں گے کہ انکی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہی فرعون اور انکی باقیات ہیں ، مگر دوسری طرف وہ اپنے حکمرانوں کی فرعونیت کو برداشت نہیں کر پا رہے ، یہ شاید مصر کی بدقسمتی ہے یا خوشقسمتی کہ فرعونوں کے اس دیس میں فرعونیت سوائے دکھاوے کے کچھ نہیں رہی ۔ ۔ ۔ اور ہر فرعونِ راہ فرعون کے مصداق ہوتا ہی رہا ، ہر فرعون پچھلے فرعون سے حکومت چھینتا رہا اور خدا بن بیٹھتا ۔ ۔

یہ فرعونیت بھی عجیب لقب ہے ، فرعون کے دور میں ہر کوئی فرعون ہوتا تھا جو فرعون کو مانتا تھا ۔ ۔ ۔ بڑے فرعون (یعنی بادشاہ وقت) سے لیکر ایک عام سپاہی تک سب فرعون تھے ، مگر ہر ایک کا درجہ مختلف تھا ، یعنی سب سے بڑا فرعون اور اس سے چھوٹا اور اس سے چھوٹا ۔ ۔۔ ۔ ۔

اگر آپ نے غزہ کے مقبرے دیکھے ہوں تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک بہت بڑا اہرام ہے اور اسکے قریب ہی چھوٹے چھوٹے تین مقبرے ہیں جو ایک جیسے ہیں مگر کچھ فاصلے پر مزید اہرام ہیں جنکا سائز مختلف ہے ۔ ۔ ۔ یہ فرعونوں کے رتبے ہیں ۔ ۔ ۔

ویسے غزہ پر مجھے فلسطین والا غزہ بھی یاد آتا ہے ، جہاں کے غلام ، بنئ اسرائیل کی غلامی میں مصری فرعونوں کے لئے مقبرے بنا رہے ہیں ۔ ۔۔ بلکہ تمام عرب حکمرانوں کے لئے ۔ ۔۔

میں ان فرعونوں کے انداز حکمرانی کا قائل ہوں کہ زندہ فرعون تو خدا ہوتا ہی تھا (نعوذباللہ) مگر مرتے ہوئے بھی ایسا انتظام کر جاتا کہ اسکی قوم ایک عرصے تک اسکی لاش کی خدمت کرتی رہتی ۔ ۔۔ ۔ ذرا سوچیں کہ ایک فرعون مر گیا تو اسکی لاش کو خنوط کیا گیا ، اسکے لئے کیا کیا ٹیکنالوجی ایجاد کی گئی ، کتنے سائنسدانوں نے مرکب بنائے ۔ ۔ ۔ اور دوسری طرف کتنے ہی آرکیٹیکٹ اسکے مقبرے کی ڈآئزئنگ کرتے رہے ، کتنے لوگ سونے کے زیورات جمع کرتے رہے اور کتنے ہی لوگ پتھروں کو تراشتے رہے ، اہرام کی ایک ایک اینٹ یا بلاک منوں نہیں ٹنوں وزنی ہے جسکو اٹھانے کے لئے کتنے ہی غلام چاہیے ہونگے ، اور پھر ان سب کے کھانے پینے کے لئے کہاں سے آتا ہو گا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ان غلاموں کو زندہ رکھنا فرعونوں کی مجبوری تھی ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس زمانے کی سب ٹیکنالوجی ، سب ایجادات سب کاروبار اور سب کا جینا ، مرنا، دکھ، سکھ، محنت، مزدوری صرف فرعونوں کے عیش و آرام کے لئے تھی ۔۔ ۔

اب ذرا موجودہ دور میں واپس آ جاتے ہیں ، اپنے اردگرد دیکھیے اور ذرا غور کریں کہ کیا ہم انہیں فرعونوں کے دور میں نہیں رہ رہے ؟؟ سب سے بڑا فرعون سُپر پاور کا حکمران اور باقی چھوٹے فرعون ہم پر حاکم ۔ ۔ ۔ ہمارا ایک ایک قدم ان فرعونوں کے تابع ہے ، ہماری محنت کا پھل فرعون کھا رہے ہیں ، چاہے وہ حاکم ہوں یا کوئی کاروباری ، حتہ کہ ایک دوکان والا بھی موقع ملنے پر اپنی فرعونیت ظاہر کر دیتا ہے

آپ ذرا سوچیے کہ یہ فرعون مر کہ بھی نہیں مرتے ، کیا کہا ، ایسا کون ہے ، ارے ، اب کس کس کا مزار دیکھاؤں ؟ سجدے تک تو ہو رہے ہیں ، ہر زندہ فرعون کسی مردہ فرعون کی کوکھ سے ہی جنم لے کر آیا ہے ، یہ ہی فرعونیت کی معراج ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمارے فرعونوں کی راہ میں کوئی موسٰی نہیں ۔ ۔ ۔ کیونکہ ہم سامری کے بچھڑے کی پوجا میں اتنے کھو چکے ہیں کہ موسٰی آ کہ بھی کہے تو ہم کہیں گے ، کہ جاؤ تم اور تہمارا خدا لڑو فرعون سے ۔ ۔۔ ۔۔ ۔
اسی لئے تو میں بار بار سوچتا رہتا ہوں ، کہ پاکستانی حکمران فرعون ہیں یا فرعون پاکستانی تھے 
ـــثمر غازی ــ

٭زبان ناپاک نہ ہو٭٭٭٭٭

0 comments
انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں ، اور انکا ایک لیڈر ہوتا ہے ، جو اپنی تھوتھنی اٹھا کر ان سب کی رہبری کرتا ہے ، مگر انکی ایک اور بھی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر کوئی خود کو لیڈر سمجھتا ہے ، اور چاہے کتنی کھلی جگہ پر یہ ہوں ایک دوسرے کو رگڑتے رہتے ہیں ، یہ عجیب جانور ہے جسے گندگی پسند ہے ، جب کچھ بھی نہ ملے تو اپنا فضلہ بھی کھا لیتا ہے ، جس جگہ رہتا ہے اسے گندا کرتا ہے ، جو لوگ اسے کھاتے ہیں ، انہیں سب سے بڑا مسلہ ہی اسکے گوشت کو صاف کرنے کا ہوتا ہے ، یہ بیماریوں کا باعث بنتا ہے نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ جانوروں کے لیے بھی ، مگر یہ پھر بھی پالا جاتا ہے ، اسے کھایا جاتا ہے ، اسے ایک خوبصورت شکل دی جاتی ہے ، مگر یہ اپنی خصلتیں نہیں بدلتا ، بدلے بھی تو کیسے کہ یہ تو جانور ہے ، اسکا سب سے زیادہ کام کھڑی فصلیں تباہ کرنا ہے ، انکا ریوڑ جب بھاگتا ہے تو نہیں دیکھتا کہ آگے کیا ہے اور سب کچھ روندتا چلا جاتا ہے ، یہ جانور دوسرے تمام جانوروں سے مختلف طریقے سے اپنی افزائش کرتا ہے ، ایک مادہ کتنے ہی نروں کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ واحد جانور ہے جو مادہ نہ ملے تو نر کو یہ تختہ مشق بنا لیتا ہے ، اس معاملے میں یہ بہت تمیز سے قطار بنا لیتا ہے کہ میری باری آ جائے گی

آپ بھی سوچیں گے کہ مجھے آج کیا سوجھی ، آج میں نے اپنے حاکموں دیکھا تو یہ بالکل اس جانور جیسے لگے ، یہ بھی گندگی سے لتھڑے ہوئے ہیں ، مگر ایک دوسرے کو چاٹ رہے ہیں ، اقتدار کے لئے قطار بنا کر کھڑے ہیں ، اور عوام سے انکا دور کا واسط نہیں ، اب کیا کروں کہ میں نہ اپنے حاکموں کا نام لے سکتا ہوں ، اور نہ اس جانور کا کہ زبان ناپاک ہوتی ہے