1۔ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ بہت بڑے خلجان کا شکار ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لیے کیسا لائحہ عملSTRATEGY ) مرتب کرے حالانکہ یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ اختتام وقت کی لڑائیاں ( End of Time Battles ) جاری رہیں گی ۔ اگر ہم ہر لحظہ قرآن مجید کی طرف متو جہ رہیں اور اپنی ایمانیات ( Motivating Force ) کی ترقی و ترویج دل و جان سے کرتے چلے جائیں تو ہمارے قدم صحیح منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے ۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے :
( اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انشَقَّ الْقَمَرُ ۔ وَ اِن یَرَوْا آیَةً یُعْرِضُوا وَ یَقُولُوا سِحْر مُّسْتَمِرّ ۔ وَ کَذَّبُوا وَ اتَّبَعُوا أھْوَاء ھُمْ وَ کُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرّ ۔ وَ لَقَدْ جَآئَ ھُم مِّنَ الْأَنبَاء مَا فِیْھِ مُزْدَجَر ۔ حِکْمَة بَالِغَة فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ ۔ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلَی شَیْ نُّکُرٍ ۔ خُشَّعاً أَبْصَارُھُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ کَأَنَّھُمْ جَرَاد مُّنتَشِر ۔ مُّھطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ھٰذَا یَوْم عَسِر )
“ قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے ۔یقینا ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں ڈانٹ ڈپٹ (کی نصیحت ) ہے اور کامل عقل کی بات ہے لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا پس (اے نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) تم ان سے اعراض کرو جس دن ایک پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف پکارے گا ۔ یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہوں گے کہ گو یا پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے ۔ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوں گے اور کافر کہیں گے یہ دن تو بہت سخت ہے ۔” (القمر :1 تا 8)
2۔ تواتر روایات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے ثابت ہوا ہے کہ معجزہ شق القمر آج سے چودہ سو انتالیس ھجری قبل وقوع پذیر ہوا ۔اجرام فلکی میں سے ایک کا دونصف ٹکڑوں میں ہو جانا ، طویل فاصلہ دور ہو جانا اور دفعتاً آپس میں جڑ جانا ایک ایسامحیر العقول واقعہ آسمان پر پیش آیا جس کی تنقیح و توضیح اسلامی دنیا کے سائنس دانوں اور تجربہ نگاروں پر قرض ہے ۔ “ دجالیات “ کے موضوع پر مجلہ “ الواقعة “ میں کچھ احقر کی گزارشات شائع ہوئیں مگر قیامت کی بڑی نشانیوں کا ذکر نہ آسکا۔ ہماری دنیا سے چاند و سورج کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ ایمان بالآ خرت کی تقویت معجزہ شق القمر پر یقین لانے سے ہو تی ہے تو اس کی تکمیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے پر منحصر ہے بشرطیکہ یہ خدائی عمل قبل از موت مشاہدہ میں آئے ۔ فلکیات کی تاریخ ١٣ صدی عیسوی سے مدون ہونی شروع ہو ئی اس لیے مغربی دنیا شق القمر سے ناواقف ہے اور جہالت کا شکار ہے ۔ عقل مندوں کے لیے آفاق میں بکھری ہوئی نشانیوں سے دلوں کے تالے کھل سکتے ہیں :
( أَ فَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُھَا )
“کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں ۔”(محمد: 24)
3۔ خلا نوردی ( Astro Nautics ) کی شروعات بیسویں صدی کی مرہون منت ہے ۔ امریکن خلانورد نیل آرم سڑونگ دنیا کا پہلا شخص ہے جس نے چاند پر قدم رکھا ، اپنی چاند گاڑی کی سیر کی اور اپنے ہمراہ لائے ہو ئے دنیا کے تمام ممالک کے جھنڈوں کے نمونے ( PLAQUES ) سطح قمر پرسجا دیے ۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بڑے طمطراق سے کلمہ طیبہ کا ورود بھی اس سیارہ پر ہوگیا جس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی انگشت شہادت کے اشارہ پر رب العالمین نے دو نیم فر مایا تھا (ہمارا اشارہ سعودی عرب کے جھنڈے کی طرف ہے ) رب العالمین کی کائنات میں شہادت الوہیت و شہادت ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ایک انسان نے تحریری چاند پر پہنچا دی ۔ الحمد للہ !
4۔ دنیا میں ٹکنالوجی پر ہر شخص فدا ہو تا نظر آتا ہے مگر مو منانہ بر تری ( Superiority ) کے بارے میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
( أَ وَ مَن کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنٰھُ وَ جَعَلْنَا لَھُ نُوراً یَمْشِیْ بِھِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُھُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ )
“ کیا وہ شخص جو پہلے مر دہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لو گوں کے در میان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو ا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو ؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ۔” (الانعام : 122)
ہمارے لیے ضروری ہے کہ سمجھیں کہ ٹکنالوجی بمقابلہ ایمان مادہ پرستی (materialism) کی طرف دلوں کو کھینچتی ہے اور نفسانی خواہشات بڑھاتی ہے ۔اس ضمن میں قرآنی نصیحت ہے :
( فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُوا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُونَ أَھْوَاء ھُمْ وَ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللَّھِ اِنَّ اللَّھَ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )
“ پھر اگر یہ تیری نہ مانیں توتو ،یقین کر لے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں ۔اور اس سے بڑھ کر بہکا ہو ا کون ہے ؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو ا ہو بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے ، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (القصص :50)
قرآن کے بتائے ہو ئے حقائق پر مومن نہ صرف ایمان لاتا ہے بلکہ اس کے ایمان و یقین و سکون اور اطمینان قلب میں تر قی ہو نے لگتی ہے ۔ اور جو لوگ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں کرتے چلے جاتے ہیں ان کا حال کیسا ہو تا ہے ؟ خود قرآنی تبصرہ پر غور و فکر فر مائیں :
( وَ اِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَة فَمِنْھُم مَّن یَقُولُ أَیُّکُمْ زَادَتْھُ ھَذِہِ اِیْمَاناً فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ فَزَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَ ھُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ۔ وَ أَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِھِم مَّرَض فَزَادَتْھُمْ رِجْساً اِلَی رِجْسِھِمْ وَ مَاتُواْ وَ ھُمْ کَافِرُونَ ۔ أَ وَ لاَ یَرَوْنَ أَنَّھُمْ یُفْتَنُونَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لاَ یَتُوبُونَ وَ لاَ ھُمْ یَذَّکَّرُونَ ۔ وَ اِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَة نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلَی بَعْضٍ ھَلْ یَرَاکُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُواْ صَرَفَ اللّھُ قُلُوبَھُم بِأَنَّھُمْ قَوْم لاَّ یَفْقَھُون )
“ جب کوئی نئی سورت نازل ہو تی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پو چھتے ہیں کہ “ کہو تم سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ؟ “ (اس کا جواب یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہو نے والی سورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دل شاد ہیں ، البتہ جن لو گوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہو ا تھا ان کی سابق نجاست پر ( ہر نئی سورت نے ) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا اور وہ مرتے دم تک کفر میں مبتلا رہے ۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟ مگر اس پر بھی نہ تو بہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں ۔اور جب کو ئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ، پھر چپکے سے نکل بھا گتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دئیے ہیں کیو نکہ یہ ناسمجھ لو گ ہیں ۔” (التوبہ: 124 تا 127)
5۔ سورج اور چاند کے جوڑ کو ، با لواسطہ (indirectly )عام فہم انداز میں روزانہ کی ضروریات (دینی اور دنیوی ) پوری کرنے ساتھ ساتھ قیامت کا حوالہ بھی دیتے ہو ئے ، جناب باری تعالیٰ کس طرح اشارات دے رہے ہیں تاکہ آسمان پر ان نشانیوں سے عبرت ہو:
( وَ جَعَلْنَا اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَ جَعَلْنَا آیَةَ النَّھَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ وَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً ۔ وَ کُلَّ اِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئِرَہُ فِیْ عُنُقِھِ وَ نُخْرِجُ لَھُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُوراً ۔ اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً )
“ ہم نے ، رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں ، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لیے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرمادیا ہے ۔ ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا۔ لے! خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے ۔ آج تو تو آپ اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔” (بنی اسرائیل: 12 تا 14)
6۔ رات و دن کا ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنا جانا کتنی بڑی عظیم الشان نعمتیں بھی ہیں ،غور فر مائیے :
( قُلْ أَرَأَیْتُمْ اِن جَعَلَ اللَّھُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَداً اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ اِلَھ غَیْرُ اللَّھِ یَأْتِیْکُم بِضِیَاء أَفَلَا تَسْمَعُونَ ۔ قُلْ أَرَأَیْتُمْ اِن جَعَلَ اللَّھُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَداً اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ اِلَھ غَیْرُ اللَّھِ یَأْتِیْکُم بِلَیْلٍ تَسْکُنُونَ فِیْھِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔ وَ مِن رَّحْمَتِھِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوا فِیْھِ وَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِھِ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )
“ کہہ دیجئے ! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی لائے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ پوچھئے! کہ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے ؟ جس میں تم آرام حاصل کر و ، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو ؟ اسی نے تمہارے لیے اپنے فضل و کرم سے دن رات مقرر کر دیے ہیں کہ تم رات میں آرام کرو اور دن میں اس کی بھیجی ہو ئی روزی تلاش کرو، یہ اس لیے کہ تم شکر ادا کرو ۔” ( القصص :71 تا 73)
7۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دشمن بادشاہ نمرود غیر مسلم مغربی اقوام کا پسند یدہ ہیروؤں ( Heroes ) میں سے ایک ہے ۔ اس نے جب آگ کے بہت بڑے الاؤ میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے مانے ہوئے پیشوا (Patriarch) کو ڈالنے والا تھا ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا ۔ فرقان حمید کی بیان کردہ رپورٹنگ (reporting) اپنے احاطہ فکر میں لائیے :
( أَ لَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رِبِّھِ أَنْ آتَاہُ اللّٰھُ الْمُلْکَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیِیْ وَ أُمِیْتُ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ فَاِنَّ اللّٰھَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَ اللّٰھُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )
“ کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا ، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے وہ کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ، ابراہیم (علیہ السلام ) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ ۔ اب تو وہ کافر، بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔” (البقرة: 258)
8۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے مبارک دور میں دنیا کرہ ارض کی اپنے محور کے گرد گردش وغیرہ سے ناآشنا تھی جب کتاب ہدایت کا گردش لیل و نہار کا ذکر کرتا اور اب دنیا کے چوٹی کے ماہرین فلکیات کی روز افزوں ترقی پذیر تحقیقات میں نظر آنے والا بُعد ایمانی غور و فکر سے غائب ہو جاتا ہے کیو نکہ فر مانروائے کائنات اپنے جاہ جلال کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہی تخلیق کردہ ثابت و سیارہ ، سورج و چاند کا اپنے مدار میں حرکات Rotation کو روک دیں تو زندگی محال ہو جائے پیرا 5 اور 6 میں بیان کردہ تر جمہ آیات کا ایک مرتبہ اور مطالعہ فرما لیا جائے ۔اب اگر مسلمان طالب علم کو سائنسٹفک طریقہ تعلیم سے گردش لیل و نہار بخوبی سمجھائی جا سکتی ہے تو بطریق احسن ان چند آیات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نعمتوں کا خلوص نیت سے اسے اظہار تشکرسکھانا اس کے ایمان کو کیسی جلا (الفاظ بیان سے قاصر ہیں ) بخشے گا ۔!




