Thursday, 18 December 2014

●═══◄کڑوی مگر سچی تحریر ـــبچہ جمہوریہ ►═══●

0 comments



●═══◄کڑوی مگر سچی تحریر ـــبچہ جمہوریہ ►═══●

اسلامی جمہوریہ پاکستان – یہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ ۔ انسانی تمدن کی تاریخ میں مختلف طرزِ ہائے حکومت اور ان کی ذیلی شکلیں آزمائی گئیں ۔ جمہوریت (Democracy)، اشرافیت (Aristrocracy)، عدیدیت (Oilgarchy) ، ملوکیت (Monarchy)، آمریت (Dictatorship)، مذہبی حکومت (Theocracy) ، لبرل اور سیکولر حکومت اور ایک عدیم النظیر خلافت راشدہ ۔ پاکستان کا طرزِ حکومت ان سب سے ماوراء ہے۔ اردو، فارسی، عربی اور کسی اور زبان میں اس کے شایانِ شان کوئی لفظ نہیں ایک نئی اصطلاح ڈھالنی پڑتی ہے۔ یونانی زبان کا ایک لفظ Klept بمعنی چور ہے اس سے انگریزی لفظ Kleptomania نکالا گیا۔ ایک معتبر انگریزی ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں۔
An Irresistable Tendency to Theft in Persons who are well to do.
خوشحال لوگوں میں چوری کا بے قابو رجحان۔
کیا پاکستان میں رائج طرزِ حکومت کے لیے کلپٹوکریسی سے بہتر نام سوچا جا سکتا ہے؟ ہم اردو میں اس کو "دزدیت" کہہ سکتے ہیں۔ دزد فارسی میں چور کو کہتے ہیں، اردو میں دزدیدہ نگاہی، دزدِ حنا کے الفاظ مستعمل ہیں۔ ملک کے محسود ملوک اشرف و اشراف و مشرف، معظم فی الدین و الدنیا اور ان کے منظور نظر کی مال داری اور زرداری سے کون واقف نہیں۔ ان میں اقتدار کے تخت نشین بھی ہیں روحانی دنیا کے سجادہ نشین بھی۔ چوری اور سینہ زوری کرنے والے روحانی اور دنیاوی پیشوا اگر چورنہیں تو کیا چور کے سر پر دو سینگ ہوتے ہیں؟ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اراکین اور ارباب حل و عقد پر ٹیکس چوری، رشوت خوری، خورد برد، غبن، جعلی ڈگری رکھنے، انتخابات میں دھاندلی کرنے وغیرہ کے سر عام ببانگِ دہل الزام لگتے رہے ہیں اور لاکھوں کی چوری ان خاندانی موروثی چوروں کے شایان شان نہیں۔ یہ اربوں کھربوں کے الٹ پھیر کے مشاق چور ہیں۔
اور پھر کہا جاتا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور صحابہ کرام کی قائم کردہ مدینہ کی پہلی نظریاتی ریاست کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی اسلامی ریاست ہے۔ نظریاتی اور واقعاتی طور پر یہ اس درجہ کا جھوٹ ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنا۔ جھوٹ کی تکرار جھوٹ کا عقیدہ بنا دیتی ہے۔ دونوں ریاستوں میں ایک ہی چیز مشترک ہے کہ دونوں ریاستیں ہیں۔ باقی ہر معاملہ میں وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فرعون کی بھی ایک حکومت تھی وہ حکمران تھا، حضرت عمر کی بھی ایک حکومت تھی وہ بھی حکمران تھے، اس اشتراک کے قطع نظر دونوں حکمران اور ان کی حکومتیں ایک دوسرے کی ضد تھیں، گل و خار میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں نباتاتی پیداوار ہیں دونوں کے متضاد خواص سے ہر ایک واقف ہے۔
مدینہ کی ریاست کے بانی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم تھے معصوم عن الخطا تھے۔ وحی الٰہی کی ہدایت سے بہرہ ور تھے ان کے جانشین ان کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے عقیدہ سے علم کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ ان کا دین علم کی یقینیات پر تھا وہاں کے لوگ افلا تعقلون، افلا تتفکرون، لعلھم یفقھون، افلا یتدبرون کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اولوا الالباب اور اولی الابصار تھے۔
مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد عقیدہ توحید اور اس کے تقاضوں کی تکمیل پر تھی اس عقیدہ کی بنیاد بھی تعقل و تفکر تھی۔ قرآن نے ان کے دلائل دیئے اور دعوت فکر دی۔ عقل و حواس کی خدا داد نعمتوں کی نا قدری پر قرآن نے اوّلین مخاطبین سے سورہ اعراف آیت 179 میں فرمایا :

وَلَقَدۡ ذَرَأۡنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرٗا مِّنَ ٱلۡجِنِّ وَٱلۡإِنسِۖ لَهُمۡ قُلُوبٞ لَّا يَفۡقَهُونَ 

بِهَا وَلَهُمۡ أَعۡيُنٞ لَّا يُبۡصِرُونَ بِهَا وَلَهُمۡ ءَاذَانٞ لَّا يَسۡمَعُونَ بِهَآۚ 

أُوْلَٰٓئِكَ كَٱلۡأَنۡعَٰمِ بَلۡ هُمۡ أَضَلُّۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡغَٰفِلُونَ ١٧٩

"اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا یعنی بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، ان کے پاس عقل ہے لیکن اس سے سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں، کان ہیں مگر سنتے نہیں وہ عقل و حواس کھو کر چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے زیادہ کھوئے ہوئے، ایسے ہی لوگ ہیں جو سر تا سر غفلت میں ڈوب گئے۔"
مدینہ کے حاکم دنیاوی معاملات میں مقتدر تھے، دین کے معاملات میں جانشین رسول معلم تھے، محتسب تھے، مفتی تھے، الآمرون بالمعروف و الناھون عن المنکر تھے، والحافظون لحدود اللہ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو اطاعت رسول کا حکم دیا۔ فرمایا: مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدۡ أَطَاعَ ٱللَّهَۖ (النساء : 80 ) اور سنہ 10 ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر سورہ مائدہ کی آیت 3 کے ایک حصہ میں فرمایا:
پاکستان کے موجود حکمرانوں کا مختصر ذکر ہو چکا۔ دوسری نظریاتی اسلامی مملکت کا قیام ان لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جنہیں اسلامی ریاست کی ہیئت ترکیبی، فکری اساس، تشکیل کے بنیادی عوامل و عناصر کے طریقہ کار کا شعور نہ تھا دین کے عقائد کی بجائے ان کے ہاں صرف موروثی روایاتی خوش اعتقادی تھی۔ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ میں کوئی عالم دین نہیں تھا۔ کسی مخلص، لائق و فاضل با کردار سیاست دان کی اپنے موقتی درپیش مقاصد میں کامیابی، علم دین سے بہرہ مندی اور تاریخ کے الٰہی قوانین کے شعور کی دائمی رہنمائی کا بدل نہیں اور آج بھی کسی سیاسی جماعت میں کوئی عالم دین نہیں ہر جماعت میں ایک ہی شخصیت میں علامہ، مولانا، مفتی، مفکر، فلسفی، دانشور،قانون داں وغیرہ کی صفات جمع ہوگئی ہے۔ ملک میں جماعتوں اور انجمنوں کی کمی نہیں اور پھر ہر جماعت کا ہر قائد اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ ایک نئی مصیبت آن پڑی کہ بھانڈ، بہروپیے، مسخرے، قصہ گو، گویوں، جہلا کو دشمنان اسلام اور ان کے مقامی آلہ کار بعض میڈیا والوں نے مسلمانوں میں با وقار با اثر شخصیات قرار دے کر جاہل عوام کے ذہنوں پر ان کا سکہ بٹھانا شروع کیا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدار ذوق خواری ہے
اکثر میڈیا والے جنس رسوائی کے دلال اور ذوقِ خواری کے خریدار ہیں اور اس سودے میں کروڑوں کے وارے نیارے ہیں ان کا مقصدِ حیات اور ان کا معبود پیسہ ہے۔ جو پیرہن ان کا ہے مذہب کا کفن ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اسلام کی پیروی کی دعویدار ہے لیکن اسلام سے عملاً نکلے ہوئے ان مسلمانوں کو اسلام سے وہی نسبت ہے جو کعبہ سے نکالے گئے بتوں کو کعبہ سے تھی جن کے متعلق غالبؔ نے کہا تھا
گو واں نہیں پہ واں کـــے نکالـــے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
دوسری نظریاتی اسلامی ریاست میں دین ایک تماشہ ہے، لہو و لعب ہے، خرافات ہے، اس لیے اللہ کا حکم ہے :
وَذَرِ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَهُمۡ 
لَعِبٗا وَلَهۡوٗا وَغَرَّتۡهُمُ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَاۚ (الانعام :70)
"ایسے لوگوں سے کنارہ کش رہو جنہوں نے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔"
مسخرہ عالم یا منافق سیاستدان جیسے نیچ سے نیازمندانہ یا خود غرضانہ تعلق رکھنے والا اس آیت کے حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔ الغرض غور کریں پاکستانی قوم کردار کے بحران Crisis of character میں مبتلا ہے اور کردار کا خمیر مذہبی احکام کی پابندی، ضابطہ اخلاق کی پاسداری اور ہوش و حواس کی یاری سے اٹھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان اسلام کا قلعہ کیوں کر ہے۔

0 comments: